روداد خیال
صفدر علی خاں
پاکستان میں مہنگائی میں کمی لانے کے سارے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے ہیں ،یہ حقیقت طشت ازبام ہے کہ پٹرول کے نرخ بڑھنے پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور موجودہ حکومت گزشتہ برس سے مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہے ،اپوزیشن کے احتجاج پر گزشتہ برس پٹرول مہنگا کرنے سے ایک آدھ بار گریز کیا گیا پھر اپوزیشن بکھر گئی اور حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت ملک میں ہوشرباء مہنگائی کا طوفان برپا کرنے والے کام بڑے دھڑلے سے کرتی چلی گئی۔ پچھلے دنوں اپوزیشن جماعتوں میں پھر سے وزیراعظم کے خلاف متفقہ طور پر تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق پیدا ہواہے،اپوزیشن رہنمائوں کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ،اقتدار کے ایوانوں میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی گونج سنائی دی ،اپوزیشن رہنمائوں نے حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کی خاطر سیاسی رابطوں کا آغاز کیا تو پندرہ روزبعد پٹرول کے نرخ بڑھانے سے حکومت نے گھبرا کر گریز کا راستہ اختیار کیا مگر اسکے اگلے پندرہ دن بعد تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے حوالے سے اپنے تئیں کوئی حکمت عملی تیار کرنے کے بعد حکومت نے پھر سے پٹرول مہنگا کردیا بلکہ گزشتہ نرخ نہ بڑھانے کی کسر بھی پوری کردی ،اس وقت پٹرول کے نرخ ملکی تاریخ میں مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑچکے ہیں ،حکومت کو عوام کی مشکلات اور مسائل کی کوئی پروا نہیں ہے بس خوف صرف اقتدار کے اچانک چلے جانے کا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو غور سے دیکھا جائے تو یہاں دو چیزیں اچانک غائب ہونے میں بے مثال ہیں ایک بجلی یکدم غائب ہوتی ہے دوسرا اقتدار ہاتھ کی ہتھیلیوں سے ریت کی طرح اچانک پھسل جاتا ہے اسکے لئے کئی طرح کے انداز اختیار ہوئے ہیں ،براہ راست “السلام علیکم ہم وطنو!”ایک طریقہ بہت عام رہا ہے پھر کبھی عدلیہ کے ذریعے تو کبھی ان ہائوس تبدیلی کے نام پر اچانک اقتدار کا پرندہ اڑ جاتا ہے ،اس بار اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے” ان ہائوس “تبدیلی کے منصوبے پر بالاآخر اتفاق کرلیا ہے اس کھیل میں سب سے اہم گنتی پوری کرنا ہوتا ہے ،جس میں کئی مہرے ادھرسے ادھر کرنے کی چال چلنے کی روایت عام ہے ،اپوزیشن کے انتہائی زیرک سیاستدان آصف علی زرداری نے اپنی پہلی چال چلتے ہوئے حکومت کے سب سے کمزور حصے پر وار کرنے کی کوشش کرڈالی ،حکومتی اتحادیوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی راہ کھولنے کی خاطر میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ،برسوں سے روٹھے ہوئے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا تو حکومت نے بھی اپنے وجود کو بچانے کی خاطر سرگرمی دکھائی اور اتحادیوں کو ہر حال میں خوش کرنے کی پالیسی اختیار کرلی ۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اپنے اعلان پر کاربند رہنے کی ٹھان لی ہے ،اپوزیشن کے پاس حکومت گرانے کا بڑا جواز اس وقت مہنگائی اور معاشی بدانتطامی ہے۔ ایسے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے باہمی روابط اور ملاقاتوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ان رابطوں میں حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی خاصی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کے آغاز سے دیکھا جائے تو سنہ 1973 کے آئین میں جب تحریک عدم اعتماد کا طریقہ وضح کیا گیا تھااس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دوتہائی اکثریت حاصل تھی اس لئے کبھی یہ تحریک کسی نے پیش کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ مگر آگے چل کر جب ملک میں ایک بار پھر جمہوری سفر شروع ہوا توپھر ان ہائوس تبدیلی کے نام پر آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتیں گرانے کی کوششیں ہوتی رہیں ۔مگر اس میں ایک قباحت اب یہ پیدا ہوچکی ہے کہ اگر کوئی حکومتی رکن وزیراعظم کے خلاف ووٹ دے تو ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی اس رکن کے خلاف الیکشن کمیشن کو 18 ویں ترمیم کی روشنی میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے پر نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔تاہم یہاں نئے حالات میں ابھی یہ بھی طے ہونا باقی ہے کہ پہلے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا مرکز سے اس کا آغاز کیا جائے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس حوالے سے اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دیدی ہے ،قانونی پیچیدگیوں کے توڑ کا راستہ نکال لیا گیا ہے ۔مگر گنتی پوری کرنے کے اس سیاسی کھیل میں اصل امتحان اپوزیشن کے لئے وہ ہوگا جب مطلوبہ حکومتی ارکان توڑ کر یہ اپنے ساتھ ملانے والا دعوی’ پورا کرنے کے مرحلے تک پہنچے گی ۔
اب تک کی سیاسی سرگرمی میں بڑی پیش رفت ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کی تحریک عدم اعتماد لانے پر رضا مندی ہے ۔ نواز شریف پہلے اس خیال کے حامی نہیں تھے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے کیونکہ وہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دینا چاہتے تھے۔ مگر اب وہ بھی اس تحریک کے حامی ہو گئے ہیں،اپوزیشن کی بکھری جماعتوں کے یکجا ہوکر ایک صفحے پر آنے سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب عمران خان کے سر سے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اٹھ گیا ہے اورپھر عام اتنخابات سے متعلق بھی اپوزیشن میں کوئی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ نگران حکومت کے حوالے سے بھی کوئی فارمولا طے پا گیا ہے ۔حکومت اور اپوزیشن سے حالات نئی چالیں چلنے کا تقاضہ کررہے ہیں۔اقتدار کی بازی پلٹنے کے لئے طاقتوروں کی حمایت کے بغیر کامیابی کسی کا شائد مقدر نہ بنے کیونکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان ہے جبکہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔