خواہشوں کے میلے

565

روداد خیال
صفدر علی خاں

خواہشوں نے ہر عہد میں انسان پر غلبہ پائے رکھا ،ہزاروں سال سے انسانی رویے خواہشوں کے مرہون منت رہے ہیں ۔اس کھیل میں دوسروں پر غلبہ پالینے کی خواہش انسان کو فساد پر اکساتی رہی ہے اور آج بھی دنیا کی ہر خرابی کے پیچھے یہی خواہش کارفرما رہی ہے ،اختیار حاصل کرنے کی ازلی خواہش ہی کسی طور بگڑ کر دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی راہ دکھاتی ہے اور طاقت کے حصول و استعمال کے نت نئے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔دنیا میں تمام بڑی جنگوں کے پیچھے یہی اصول کارفرما رہا ہے ۔سپرپاورز کو یہی خواہش دنیا پر حکمرانی کا راستہ دکھاتی ہے جس کے ساتھ کئی دیگر برائیاں منسلک ہوجاتی ہیں ،کسی کو امن کے نام پر محکوم بنانے کا چلن اختیار کیا جاتا ہے تو کسی کو بدی کا محور قرار دیکر اس پر فوج کشی کرنے کا اعلان ہوتا ہے ۔یہی اجتماعی رویہ انفرادی طور پر بھی انسانوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے جس کے لئے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،دنیا کے طاقتور ملکوں کے طاقتور لوگوں کی کہانیاں تو اکثر منظر عام پر رہتی ہیں تاہم ہمارے جیسے ترقی پزیر ممالک میں عزت سے زندہ رہنے کی خواہش پوری کرنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے ۔کسی طور ایمانداری سے کوئی بھی کام کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا ۔کوئی ڈھنگ کا کاروبار بھی کرنا چاہے تو اس کے راستے میں” تگڑے”لوگوں کی غلبہ والی خواہش رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ایمانداری سے کسی صاف ستھرے شعبے سے وابستہ ہونے والوں کی راہیں مسدود کرنے والے بااثر طبقات کی خواہشوں کا سامنا رہتا ہے جس پر شرافت سے کچھ کرنے کی کوشش رائیگاں جانے کا راستہ نکلتا ہے اسی طرح پاکستان میں سنٹرل سپریئر سروسز آف پاکستان (سی ایس ایس )کا امتحان پاس کرنے والے اکثر میرٹ پر کام کرتے ہیں ،انکے راستے میں بے شمار بااثر طبقات اور نادیدہ قوتیں حائل رہتی ہیں ،ہمارے عزیز دوست جو ابھی کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں پنجاب کے قابل ترین اور ایماندار افسروں میں سرفہرست رہے ۔
آخری تعیناتی گوجرانوالہ میں رہی اور وہ کمشنر گوجرانوالہ کے عہدے پر ہی ریٹائر ہوئے ،زندگی بھر خواہشوں سے دور رہے اپنے اختیارات کو عوام کی امانت سمجھ کر ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ذوالفقار گھمن نے کبھی اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہا اور اپنی زندگی آسان بنالی یہی سبب ہے کہ وہ آج جب ریٹائر ہوئے ہیں تو انکے دوستوں کی فہرست بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ذوالفقار گھمن کی انسان دوست طبیعت نے ہر باشعور انسان کو متاثر کیا ۔یہی سبب ہے کہ راقم الحروف خاکسار انکی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہے ،ایسے دوستوں کی وجہ سے ہی تو انسانیت کی رمق باقی ہے ،ورنہ خواہشوں کے غلام چہروں پر کئی چہرے سجے ہوتے ہیں جن کو شناخت کے مراحل سے گزارنے میں ہی عمر رائیگاں ہوجاتی ہے ۔انسان کے پاس وقت بہت کم ہے اسے اپنے ہونے کی وجہ کا اندازہ کرنا چاہئے اگر اپنی حقیقت انسان پر آشکار ہو جائے تو پھر اسکا دوسروں کے ساتھ سلوک بھی مشفقانہ رہتا ہے ۔خواہشوں کی دوڑ میں تو کبھی کبھار کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ،بقول شاعر ۔ع
ایسے لگتا ہے مجھے اس زندگی کی دوڑ میں
ہاتھ کچھ آئے نہ آئے دوڑتے رہ جائیں گے ۔

کسی کو حاصل کرنے کی خواہش بھی عجیب ہوتی ہے کبھی تو اس لگن میں انسان خود ہی کھوجاتا ہے اور ایسی خواہشوں کے حصار میں بندھے لوگ ہمیشہ دکھ درد کے عادی رہتے ہیں انہیں راحت کبھی نصیب نہیں ہوتی اداسیاں ان کا مقدر بن جایا کرتی ہیں ۔اس بارے میں شاعر خود اس کا برملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں ۔ع

پھرتا ہوں خواہشوں کے جنازے لئے ہوئے
مجھکو اداس ہجر کا امکان کرگیا ۔
یعنی امکان سے ہی خوف زدہ ہونے والوں کا یہ المیہ بھی ہے ابھی کچھ حاصل ہی نہیں کیا مگر خواہش نے ناکامی کے خدشے پر ڈرنا شروع کردیا
اس بارے میں بھی ہمارے ایک دوست شاعر زاہد عباس سید کہتے ہیں کہ ۔ع
اس کو پالینے کی خواہش بھی عجب خواہش ہے
اس کو کھونے کے تصور سے ڈری رہتی ہے ۔
خواہشوں کے میلے میں اب ہمارے کئی سیاستدان بھی اپنی پہچان کے کھوجانے یا نیا حوالہ بن جانے کا سامان پیدا کررہے ہیں ۔انکے دوسروں پر غلبہ پالینے کی خواہش کیا رنگ لائے گی یہ تو کہنا فی الحال قبل از وقت ہوگا ،تاہم سردست امجد اسلام امجد کی مشہور نظم کے پہلے بند سے لطف اٹھائیں۔!!

تم سے کیا کہیں جاناں! اس قدر جھمیلے میں
خواہشوں کے میلے میں وقت کی روانی ہے،
بخت کی گرانی ہےسخت بے زمینی ہے،
سخت لامکانی ہے ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے.