ہم انسان کب بنیں گے ؟

139

منشاقاضی
حسب منشا

جو لوگ امیدوں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرتے ہیں وہ بھوک سے مر جاتے ہیں , لوگوں پر تم جتنی بڑی توقع رکھو گے مایوسی کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہو گا , کچھ لوگ دوسروں کی آس پر اپنی زندگی نہ صرف تباہ کر لیتے ہیں بلکہ موت کو عزیز سمجھتے ہیں , جس طرح مشہور ادیب چارلس ڈکنز نے کیا تھا اس کی جلدی موت کا سبب یہی تھا کہ وہ لوگوں پر زیادہ امیدیں رکھنے کا عادی ہو گیا تھا وہ لوگوں کی بے وفائیوں کی زیادہ تاب نہ لا سکا اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ہر وقت مغموم رہنے لگا , اس کے برعکس اگر اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد ہوتا تو وہ اپنے آپ کو احسن انداز میں بچا سکتا تھا , مصیبت زدوں کا واحد سہارا امید ہے , امید زندگی کا لنگر ہے اس کا سہارا چھوڑ دینے سے انسان کی کوششیں گہرے پانی میں ڈوب جاتی ہیں , پاکستان میں دسترخوان , لنگر خانے اور بھوکھوں کو کھانا کھلانے کے کثیر تعداد میں مرکز بنے ہوئے ہیں , مسافروں , بے سہارا لوگوں اور کمزوروں کا آسرا بننا بہت اچھی بات ہے , لیکن ان کو شکم پروری کے ساتھ روحانی قوت سے بھی اگر سرفراز کیا جائے تو آپ کے کام کرنے میں آسانی اور روحانی تسکین ملے گی , المصطفی آئی ہسپتال ٹرسٹ دنیا کے 22 ممالک میں فلاح کے اسباب مہیا کر رہا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ گراں قدر کارنامہ ہے , لاکھوں آنکھوں کی بینائی کے لیئے اربوں روپے صرف کرنا غیرمعمولی خدمت انسانی کی بے مثال این جی او ہے , جس کے چئرمین , میر کارواں جناب عبدالرزاق ساجد اور ان کے بااعتماد رفیق ء کار جناب نواز کھرل , جناب تجمل گورمانی , محترمہ نصرت سلیم کے علاوہ ڈاکٹروں. رضاکاروں اور عملہ کا بالا و بلند طرز و انداز مسیحائی سے کم نہیں ہے , نیکیوں کے ماہ صیام میں موسم بہار کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو اس وقت بہت تکلیف محسوس ہوئی جس وقت وہ بڑے سلیقے اور قرینے سے طعام المسکین کے تقاضے پورے کر رہے تھے ان کے لیئیے ارمغان رمضان خوشحال انسان کا شاندار اہتمام راشن گفٹ کی صورت میں پیش کر رہے تھے , مگر ایک جم غفیر نے جب دروازوں کو زور سے دھکیل کر اندر ٹرسٹ کے ساتھ ملحق دستر خوان میں سیلاب کی طرح داخل ہوئے تو جو کیفیت منتظمین کی ہوئی وہ بہت افسوس ناک ہے , جناب نواز کھرل نے اپنی تمام تر حکمت عملیوں کو بروئے کار لانے کے باوجود وہ بے بس ہو گئے اور محترمہ نصرت سلیم کی بھی حالت دیکھی نہیں جا سکتی تھی , لاکھوں روپے کا راشن جس بیدردی سے منتظمین سے چھینا گیا ہے وہ افسوسناک ہے , دستر خوان اور لنگر خانے عوام کو تن آسان اور بھکاری بناتے ہیں اس لئیے ضروری ہے کہ آپ ان سفید پوش لوگوں کا خیال کریں جو اپنا دست سوال دراز نہیں کرتے , یا ان لوگوں کو پہلے تربیت دیں جو آدمی تو ہیں مگر انسان نہیں ہیں انہیں پہلے انسان بنایا جائے , غالب نے کہا تھا

کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

ہمارے اتنے پیارے اور خلق خدا سے محبت کرنے والے دوست جناب نواز کھرل اس ادارے کے ترجمان بھی ہیں اور بڑے انسان بھی ہیں پاکستان اور اسلام کے شیدائی ہیں , آپ کی گورنمنٹ کالج کی ڈگری سے زیادہ فیض کی نظر غالب ہے , آپ نے بزرگوں کا احترام اور استادوں کا ادب سیکھا ہے , اور افطار سے پہلے آپ روزانہ ایک دانشور , ادیب , خطیب اور گفتگو طراز سے روزہ داروں کو لطف تکلم سے آشنا کرواتے ہیں , لاہور کے فرزند محبت کی تبلیغ کرنے والے نفرت کی دیواروں کو مسمار کرنے والے , اخوت و رواداری کی باد بہاری کے محرک خواجہ جمشید امام جو کشیدگی کو کشادگی میں بدلنے کا ہنر جانتے ہیں , روزہ دار آپ کی پاٹ دار آواز سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ آپ کو بے بہا پسند کیا گیا , منافقت , ریا کاری اور جھوٹ سے کوسوں دور جمشید امام ہمارے محبوب دوست ہیں , میری عقیدت کی وجہ ممتاز سکالر عبداللہ ملک کے آپ عزیز ہیں اور یہ نسبت مجھے مولانا ابولکلام سے ملی ہے , جناب ناصر بشیر کی دلپذیر تقریر کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی اکسیر مسیحائی سے کم نہیں تھی , اور آج قرعہ فال میرے نام نکلا تو میری طلاقت لسانی جناب نواز کھرل نے طویل تعارفی کلمات کی بدولت چھین لی , بہرحال 22 ممالک میں یہ لوگ کام کرنے والے بیمثال لوگ ہیں جن کی فرض شناسی کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے , یہ زندگی گزار رہے ہیں عمر بسر نہیں کر رہے کیونکہ زندگی جد و جہد کا نام ہے اور عمر سہل پسندی اور خواب و خیال کا نام ہے , مجھے روزہ داروں سے خطاب کرتے وقت یہ بھی خیال آیا کہ ان کو دستر خوان کا عادی نہ بنایا جائے بلکہ ان کے دست بے ہنر کو ہنر سے آشنا کیا جائے , , جناب اکبر چوھدری نے اپنے دست ہنر سے دسترخوان کو جس طرح سنوارا ہے اس کا انداز و اسلوب ہمیشہ یاد رہے گا بقول ناصر زیدی

میں بے ہنر تھا صحبت ہنر میں رہا
شعور بخشا رنگا رنگ محفلوں نے مجھے
اللہ کرئے ہم انسان بن جائیں , انسان سے محبت کرنے والوں کی کیفیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا. واقعی کسی شاعر نے سچ کہا ہے کہ

انسان سے محبت کی سزا کتنی کڑی ہے
نفرت کے طمانچے میرے رخسار تک آئے