تحریر : اورنگزیب اعوان
عید امت مسلمہ کے لیے محض ایک مذہبی تہوار نہیں بلکہ تجدید عہد کا دن بھی ہے. اس روز امت محمدی اپنے باہمی اختلافات اور رنجشوں کو پس پشت ڈال کر آیندہ کے لیے بھائی چارے اور محبت سے رہنے کا عہد کرتی ہے . اللہ رب عزت انسان کی فطرت سے بخوبی واقف ہے. دین اسلام کا حسن ہے. کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے درمیان تعلقات برقرار رکھنے کے لیے بہترین مواقع پیدا کیے ہیں. جن سے مستفید ہو کر امت مسلمہ ایک لڑی میں پروئی جاتی ہے. ایک دن میں پانچ نمازوں کی باجماعت ادائیگی اسی مقصد کی تکمیل کے لیے فرض کی گئی ہے . تاکہ ایک علاقہ کے مکین پانچ مرتبہ ایک دوسرے سے مل سکے. اور انہیں ایک دوسرے کی خیریت کا پتہ چل سکے. اسی طرح سے جمعہ مبارک کا اجتماع رکھا گیا ہے. اس دن اہل علاقہ کھولے میدان یا جامع مسجد میں اکٹھے ہو کر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں. آپس میں میل جول رہنے کی وجہ سے اختلافات پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. انسان فطری طور پر خود غرض اور مطلب پرست ہے. اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنوں سے رنجشیں پیدا کر لیتا ہے. اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ رنجشیں شدت اختیار کرتی جاتیں ہیں. سال بعد عید ایسا تہوار ہے.جو روٹھے ہوئے عزیزوں و اقارب کو گلے لگا کر ملنے کا درس دیتا ہے. یہ تہوار اس وقت تک صحیح معنوں میں ادا نہیں ہوتا. جب تک روٹھوں کو منا نہ لیا جائے. اس دن مسلمان عہد کرتے ہیں. کہ وہ اپنی گزشتہ غلطیوں و کوتاہیوں کو بھلا کر آیندہ ایک دوسرے سے شیرو شکر ہو کر رہے گے. مگر افسوس حد افسوس ہم اپنے عہد پر قائم نہیں رہ پاتے. جیسے ہی عید کا تہوار گزرتا ہے. ہمارا عہد میں چکنا چور ہو جاتا ہے. ہم پھر سے دلوں میں کدورتیں پیدا کر لیتے ہیں. اور ایک دوسرے سے قطع تعلق اختیار کر لیتے ہیں. ہمارے اس رویہ میں مادی پرستی کا عنصر بھی کارفرما ہے . موجودہ دور میں لوگ اپنے سٹیٹس کا بہت خیال رکھتے ہیں. وہ اپنے ہم پلہ لوگوں سے میل جول بڑھاتے ہیں. غریب عزیزوں و اقارب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. بلکہ انہیں اپنا عزیز ماننے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے. ستم ظرفی کہ ہمارے علماء کرام جنہوں نے اس جاہلانہ سوچ کی نفی کرنا ہوتی ہے. وہ بھی اسی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں. مساجد میں مالدار کی خوب عزت و تکریم کی جاتی ہے اور غریب کو کوئی نہیں پوچھتا. علماء کرام مالدار شخص کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں. ان کی تعریف میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں. کیونکہ انہوں نے خطیر رقم بطور چندہ علماء کرام کی خدمت میں پیش کرنی ہوتی ہے. اس کے مقابلہ میں غریب اور مفلس شخص کچھ نہیں دے پاتا. اس لیے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی. یہ روش ہمارے اسلامی معاشرے میں زیرہ قتل ثابت ہو رہی ہے. غریب اور مفلس مسلمان احساس کمتری کی وجہ سے مساجد میں جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں. کیونکہ انہیں وہاں جاکر احساس کمتری کا شدت سے احساس ہوتا ہے. امراء بھی بڑے فخر سے اعلان کروا کر مسجد اور امام مسجد کی خدمت کرتے ہیں. اس دیکھاوے کے شوق نے ہماری معاشرتی روایات کو پامال کر کے رکھ دیا ہے. اسی کا اثر ہے. کہ لوگ اپنے غریب بہن بھائی کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں. وہ اپنے معیار کے لوگوں کے ساتھ عید و دیگر مذہبی تہوار مناتے ہیں. وہ شاید اس بات کو بھول جاتے ہیں. کہ عیدین کا اصل مقصد ہی غرباء کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا ہے. ہمارے علماء کرام اور مذہبی سکالرز کو اپنے پیٹ کی فکر کرنے کی بجائے. معاشرے کی اصلاح پر زور دینا چاہیے. کتنے ہی ایسے عالم دین ہیں. جو امراء کے درباروں میں مذہبی تہواروں کی ادائیگی کرتے ہیں. مالدار کا کتا بھی مر جائے. تو یہ نام نہاد عالم دین اس کی تعزیت کے لیے پہنچ جاتے ہیں. غریب کی ماں یا باپ فوت ہو جائے. ان کے پاس فاتحہ خوانی کا وقت نہیں ہوتا. ایسے عالم دین اسلامی معاشرے کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں. دین اسلام بہت ہی سادہ اور آسان دین ہے. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے تمام ہدایات واضح کر دی ہیں. بس ضرورت ان پر عمل پیرا ہونے کی ہے. اگر ہم بحیثیت مسلمان احکام الہی پر مکمل طور پر عمل کرنا شروع کر دے. تو اسلامی معاشرہ جنت کا منظر پیش کرنے لگے. کوئی مسلمان مفلس و تنگ دست نہ رہے. زکوٰۃ ایک ایسی مالی مدد ہے. جس کے ذریعہ سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی خفیہ طریقہ سے مدد کر سکتا ہے. اس فعل کا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے. اگر امت مسلمہ ایمانداری سے زکوٰۃ کی ادائیگی شروع کر دے. تو اسلامی معاشرے میں کوئی مسلمان مفلس نہیں رہے گا. مگر افسوس ہماری دکھاوے کی عادت نے ہمیں مذہبی احکامات سے درگزر کرنے پر مجبور کر دیا ہے. ہم اپنی دنیاوی دولت کی نمود و نمائش کے چکر میں احکام الہی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں. عید ہر سال آتی ہے. اور ہم تجدید عہد کرتے ہیں. شاید ہم اس قول پر عمل پیرا ہے. کہ وہ عہد ہی کیا جو وفا ہو جائے.اللہ رب عزت امت مسلمہ کو توفیق عطا فرمائے. کہ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شعار کی اطاعت کرنا شروع کر دیں. دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے. جس کا کوئی ثانی نہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے احکامات پر دلجوئی سے عمل پیرا ہوا جائے. پھر دیکھے یہ دنیا حقیقی معنوں میں جنت الظیر کا منظر پیش کرے گی.