معصوم لوگ چالاک لیڈر

140

تحریر؛ ناصر نقوی
مشہور بات ہے کہ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے،، لیکن آدم زادے کب ان باتوں کاخیال رکھتے ہیں جو خوش ہیں وقت جن کا ساتھ دیتا ہے وہ سمجھتے ہیں سب کچھ ان کا ہے کسی دوسرے کی فکر کی ضرورت نہیں ،اللہ نے عزت ومقام دیا اسے انجوائے ،، کرو، جو غم و مایوسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ شائد ان سے کوئی ایسی غلطی سر زد ہو گئی جس کے باعث ،، غم،، نصیب بن گئے ، لیکن ایک طبقہ اور بھی ہے جو خوشی ہو کہ غم ،، ہر حال میں مست رہتا ہے اور ہر دو صورت میں جدو جہد ، لگن اور خلوص سے نہ صرف شکر خدا ادا کرتا ہے بلکہ مستقبل کے لیئے کچھ نہ کچھ سوچتا ہے اسے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے وہ اپنی خوشی میں دوسروںکو شامل ہی نہیں رکھتا بلکہ ان کے غموں میں بھی رنجیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے اچھے برے اصولوں نے یہ سمجھا رکھا ہے کہ ،،وقت ،، ایک ساکبھی نہیں رہتا ، مالک کائنات کبھی کچھ دے کر امتحان لیتا ہے کبھی کچھ چھین کر ، لیکن جن لوگوں کو قدرت کے اس نظام کو سمجھنا چاہیے وہ اسے سمجھنے کے لیئے رضا مند نہیں ، موجودہ دور میں تبدیلی سرکار کی تبدیلی پر کھلاڑی پریشان اور جیالے متوالے خوش ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے طویل جدو جہد کر کے سلیکٹڈ حکومت ،، کو گھر بھیجا ہے ناتجربہ کار حکمران ملک وقوم کے لیئے نقصان دہ تھے انھوں نے قرضے نہ لینے کا وعدہ کر کے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیئے ، معاون اور مشیر امریکہ برطانیہ سے درآمد کیئے پھر بھی مسائل پر نہ قابوپاسکے اور نہ ہی اپنے وعدوں کے مطابق غریب عوام کو گھر روزگار دے سکے ، کھلاڑی کہتے ہیں خاں اعظم نے مشکل وقت گزار لیا اور جب ان کی حکومت کے اچھے دن آنے لگے تو بین الاقوامی سازش کے تحت مقامی سہولت کاروں کی مدد سے حکومت گرادی گئی ، اسطرح عمران حکومت کی تمام تر محنت اور حکمت عملی ضائع ہوگئی ، اب پھر چوروں اور ڈاکووں کو اقتدار مل گیا ، دیکھیںوہ پھر ماضی کی کہانی دوہرائیں گے انھیں یہ نہیں پتہ کہ ان کی حکومت زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال کی مہمان ہے، آئین اور قانون کے تحت ہر قیمت پر انتخابات میں جانا پڑے گا پھر ہر طرف کھلاڑیوں کا راج ہوگا کہ ہر شخص اپنے نظریات اور لیڈروں کاپابند ہوتا ہے لیکن بات اس قدر بڑھی کہ پاکستانی قوم کے معصوم لوگ واضح طور پر دوحصوں میں تقسیم ہو چکے ہے مدینہ منورہ میں جو واقعہ پیش آیا اس بارے میں دو نہیں روزانہ کی بنیاد پر مختلف آراء سے میڈیا اور سوشل میڈیا سچے دکھائی دیتے ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ابھی انگریز کی سیاست کا اصول چل رہا ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ دونوں گروپوں کے حمائیتی اپنی اپنی ہانک کر ہر کسی کو قائل کرنا چاہتے ہیں چونکہ رواداری اور برداشت کا خاتمہ ہو چکا ہے اسلیئے تصادم کی فضا بنتی نظر آرہی ہے جو ملک و ملت کے لیئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے پھر چالاک لیڈر جذبات کی آگ بھڑکانہ چاہتے ہیں ۔ سیاسی پنڈت سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد برملا ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ چکے تھے کہ سعودی عرب جانے والے حکمرانوں کی مدینہ میں اچھی خاطر تواضح ہو گی جسے یہ ساری عمر یاد رکھیں گے یہ جارحانہ بیان ریکارڈ پربھی نہیں، سوشل میڈیا کی بھی زینت بنا ہوا ہے اسی بنیاد پر اتحادی حکومت کے رہنماء اور مسلم لیگی متوالے یہ الزام لگاتے ہیں کہ واقعہ مدینہ ،اتفاقیہ ہر گز نہیں ، وہ تبدیلی سرکار اور خان اعظم کی حکمت عملی سے رونماء ہوا ، وہاں پی۔ٹی۔آئی کہ وفادار جہانگیر چیکو موجود تھے جو بلوئیوں کو ٹکٹ اور اخراجات دے کر لائے تھے اسی طرح واقعے کی ویڈیو شیخ رشید احمد کے بھتیجے صاحب بنا بنا کر لوڈ کر رہے تھے ایسے میں یقیناَ اسے بائی چانس نہیں کہا جاسکتا ، دوسری جانب کھلاڑیوں اور ان کے چاہنے والوں نے یہ بیانیہ عام کیا کہ واقعہ مقدس جگہ پر نہیں ہوا چور چور کے نعرے بازار میں پاکستانیوں نے لگائے وہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ چپل پہن کر پھر رہے ہیں جب اس بیانیئے کو ضرورت کے مطابق پذیرائی نہیں ملی تو پھر قائد کی یو ٹرن پالیسی کا سہارا لے کر یہ کہا گیا کہ مریم اورنگ زیب اور زین بگٹی نے ایڈوانس فیک ویڈیو بنوا کر واویلا کیا تاکہ جب ان کے دیگر اہم لوگ نکلیں تو انھیں خصوصی سیکورٹی میسر آجائے ، یہی نہیں اپنی بات کی نفی بھی کر دی کہ غیر ملکی وفود کے وی۔آئی ۔پی انتظامات کیئے جاتے ہیں جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی ، مریم اور زین جان بوجھ سیکنڈل بنانے کے لیئے وفد سے الگ ہو کر بازار میں آئے ۔ ہم اور آپ ،، اس معاملے میں یقیناََ غیر جانبدار ہیں اور وہاں موجود نہیں تھے اس لیئے دونوں بیانوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس لیئے کہ جب سیاسی مخالفت ہو تو اسی قسم کی باتیں عام ہوتی ہیں حقیقی واقعہ میں سب اپنی اپنی خواہش میں ہمت کے مطابق ملاوٹ کر لیتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ واقعہ ہوابلکہ اجتماعی مفاد میں سانحہ بھی کہا جاسکتا ہے واقعہ ،، منصوبہ بندی سے کیا گیا کہ اچانک رونماہوگیا بہر کیف قوم کی سبکی ہوئی ، اَب یہ بحث چل رہی ہے کہ لوگ پکڑے گئے انھیں سزائیں ہوئیں کہ نہیں متضاد بیانات اس سلسلے میں بھی پائے جاتے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خاں نے رواں ماہ کے آخری ہفتے کے لیئے اسلام آباد مارچ کی کال بھی دے دی اور دعویٰ بھی کر دیا کہ میرا ایمان ہے کہ اسلام آباد میں عوام کا تاریخی سمندر ہو گا تخت اقتدار لرز جائے گا ۔اس سے پہلے خان اعظم نے عید الفطر پر گلے ملتے ہوئے ایمپورٹڈحکومت نامنظور کہنے کا مشورہ دیا اس پر خان اعظم کے فرمان کے مطابق عمل نہیں ہوا لیکن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عید کی خوشیوں میں بدمزگی کے واقعات دیکھنے کو ملے اس لیئے کوئی بھی اپنے مذہبی تہوار کو سیاسی بنانے کو تیار نہیں ، اسی طرح چاند رات کو نوجوانوں کو جھنڈے پکڑ کر نکلنے کا حکم بھی دیا گیا جو سیکورٹی انتظامات اور ناکوں کی موجودگی میں کسی حد تک کامیاب نہیں ہو سکا ، تاہم سابق وزیر داخلہ شیخ رشید ابھی بھی تیسری طاقت کی دھمکی دے رہے ہیں وہ دعویدار ہیں اور دبے لفظوں میں خانہ جنگی کا پیغام دے رہے ہیں اس ہنگامہ آرائی پر فیصل آباد میں ایف۔آئی ۔آر درج ہوئی اور اس کے ویڈیومیکر بھتیجے راشد شفیق اسلام آباد ائیر پورٹ پر گرفتار بھی کر لیئے گئے۔ خان اعظم عمران خاں کا دعویٰ ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے بیرونی سازش میں سہولت کار کا کردار ادا کر کے اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ دنیا یہ جانتی ہے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی ، جسکی وہ دعا مانگا کرتے تھے اور اسکا دلیر نڈر وزیر اعظم نے سامنا نہیں کیا ، البتہ ان کے کھلاڑیوں نے ٹف ٹائم دیا ۔ اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خاں قابل داد ہیں جنہوں نے انتہائی کشیدہ حالات میں وہ دھواں دار تقریر کی جسکی امید عمران خاں سے کی جاری تھی آئین اور قانون کی پاسداری میں خان صاحب کے وفادار اسد قیصر سپیکر شپ چھوڑ کر چلے گئے اس لیئے کہ آدھی رات کو گرفتاری کے لیئے قیدی وین ،آچکی تھی ان کے آخری وقت کے استعفے نے دوہرا فائدہ پہنچایا خود بھی بچ گئے اور پارٹی قیادت سے وفاداری بھی نبھالی اسے کہتے ہیں چالاک لیڈر ۔ تاہم اس سارے سیاسی کھیل تماشے کے بعد آئینی بحران نے پنجاب کا رخ اختیار کر لیا یہاں بھی کھلاڑی خوب لڑے یہ الگ بات ہے کہ قانو ن کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں لہذا گورنر پنجاب عمر سر فراز چیمہ اپنے قانونی مشیروں کی مشاورت پر ایوان صدر سے خط و کتابت کا کھیل کھیلتے کھیلتے عثمان بزدار اور کابینہ کی بحالی کے باوجود ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف آئے حمزہ شہباز شریف سے وزیر اعلیٰ کا حلف لیا اور حمزہ شہباز 21 ویں وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے، عام اور معصوم لوگوں کا خیال ہے کہ آئینی بحران ختم ہو گیا لیکن چالاک سیاستدان اور لیڈر کہتے ہیں ابھی سیاست کے امتحان اور بھی ہیں پی۔ٹی۔آئی عدالت چلی گئی اور انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیئے منظور ہو گئی پی۔ٹی۔آئی کا دعویٰ ہے کہ حمزہ منتخب وزیر اعلیٰ نہیں ، نہ ہی ان کاحلف درست ہے لہذا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے ۔ سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں ابھی تو حکومت کوشدید بحران کا سامنا کرناپڑے گا سب کچھ غیر آئینی ہے حمزہ شہباز اعتماد کا ووٹ کیسے لیں گے منحرف ارکان تو فارغ ہو جائیں گے۔ اگر موجودہ آئینی بحران اور سیاست کا تفصیلی جائزہ لیا جائے توڈر لگتا ہے ہم قومی یکجہتی کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن ہماری سیاست مسائل کے حل اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بجائے دوریاں پیدا کر رہی ہے دعویٰ سب کا ہے کہ وہ فلاحی معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں پھر بھی ہمارے عملی اقدام باہمی تفریق اور بے ادبی کی صورت حال سے دوچار ہیں سنجیدہ لوگ بھی سوشل میڈیا پر اپنی تکرار میں مگن ہیں کیونکہ لوگ معصوم اور لیڈر چالاک ہیں ۔سیاست میں دست و گریباں کا کلچر آچکا ہے آئینی لڑائی پارلیمنٹ اور عدالتوں میں ہونی چاہیئے ۔اس لیئے کہ کسی سیاسی ، مذہبی لیڈر کے نظریات پر دوستوں اور رشتہ داروں سے تعلق داری خراب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ چالاک لیڈر آج کہیں ، کل کہیں اور کے قائل ہیں لہذاہمیں سوچنا ہوگا کہ دنیا داری میں شخصیت پرستی جہالت کی وہ قسم ہے جو اچھے بھلے شخص کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے اس لیئے احتیاط ضروری ہے کیونکہ معصوم لوگ ہیں اور لیڈر چالاک۔