(قسط نمبر ایک)
تحریر:عمران محمود
ماں اتنے دنوں سے مٹھائی نہیں کھائی۔ اتنے دنوں سے گوشت نہیں دیکھا۔ اتنے مہینوں سے ہم گھومنے پھرنے نہیں گئے۔ اتنے سال ہو گئے ہم نے کوئی کھلونا نہیں لیا۔ یہ آسمان کا چاند ہی ہمارا کھولنا ہے، جس طرف دل کرتا ہے اس کو کے لر جاتے ہیں۔ کب سے ہم اس ایک کمرے والے کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ہمارا اپنا گھر کب ہو گا؟ نہ ہمارے پاس ٹی وی ہے۔ نہ موبائل اور نہ ہی کمپیوٹر۔ کچھ بھی تفریح کو نہیں۔ بس بارش میں کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے نا لی میں پھینکنا اور دور تک ان کو دیکھنا، یہی ہمارا کھیل ہے۔ان کی ماں غصے اور پھر پیار کے ملے جلے رجحان سے بولی بیٹے ہمارے پاس روٹی پوری کرنے کو پیسے نہیں ہوتے تو یہ اضافی اخراجات کہاں سے پورے کریں۔گھر کا کرایہ بھی اتنی مشکل سے دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کے ابا کا کام کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں۔ پتہ نہیں کب ہمارے حالات سدھریں گے؟ آپ دعا کریں بیٹا۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ عرش کانپتا تو ہو گا۔ لیکن تقدیر کا اپنا نظام ہے، اپنی حکمت ہے۔بے اختیاراور کمزور انسان سوائے مایوس ہونے کے کیا کر سکتا؟ اندرون شہر کی اکثریت ابھی تک ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔
اندرون شہر کے ایک چھوٹے سے گھر کی کہانی ہے۔ ترتیب اور صفائی سے سجا ہواگھر تھا۔ سامان بھی کم تھا۔ گھر کے لوگوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیئے محبت تھی۔ غربت کا دکھ تو ہوتا ہی ہے اور دل میں کسک بھی۔ کچھ صبر و شکر بھی تھا، کچھ گلے شکوے بھی تھے۔ دو بچے صبح سویرے سکول کے لیئے بستے اٹھائے اس گھر سے نکلتے ہوئے کہہ رہے تھے ماما آج تو ہمیں اپنی اپنی پنسل اور کاپی لے دیں، ٹیچر ماریں گے۔ ماں نے کہا یہ ایک پنسل ہے آدھی آدھی کر لو اور پنسل توڑ کر دونوں کو آدھی آدھی کر دی۔ ان کو کہا جب تمہارے ابا کو کام ملے گا اور پیسے مل جائیں گے تو تم کو اپنی اپنی پنسل بھی لے دوں گی اور کاپیاں بھی۔ کچھ دنوں بعد ایسا رب کا فضل ہوا کہ ان کے ابا کا کام ٹھیک ہونا شروع ہو گیا۔ حالات کچھ ٹھیک ہونے لگے۔ لیکن ان میں کوئی تبدیلی یا غرور نہ آیا بلکہ انہوں نے اپنے تھوڑے سے مال اور وسائل میں سے، تھوڑی سی ترقی میں سے ہی ار گرد کے لوگوں کی مدد شروع کر دیا۔
کچھ لوگوں نے چند ہزار روپے لگا کر محنت اور لگن سے کام شروع کیا۔ ان پر فضل ہوا اور پھر وہ آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ نصیب کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ زیادہ دخل نصیب کا ہی ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہاں بتانے والی چیز یہ ہے کہ جو کچھ لوگ دنیا کے ہیں وہ پیسہ آنے کے بعد مکمل طور پر بدل گئے۔ حتیٰ کہ وہ سیدھے منہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہاں بنیادی فرق یہ آیا کہ سامنے تو لوگ ان کی امارت اور ظاہری حیثیت کی وجہ سے تعریف کرتے ہیں لیکن بعد میں برا بھلا کہتے ہیں۔ ایسے لوگ کمزور وغریب لوگوں کی دعاؤں سے محروم رہتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو حالات اور امیری میں نہیں بدلتے، لوگ ان کے سامنے بھی ان کی تعریف کرتے اور ان کی غیر موجودگی میں بھی۔زمانہ ان سے محبت کرتا ہے۔ دعائیں انکے نصیب کاحصہ بن جاتی ہیں۔ بلاشبہ دعائیں ہی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ بے شک ہمارا رب ہر چیز پر قادر ہے۔
خالص لوگ جس حال میں بھی ہوں خالص ہی ہوتے ہیں۔ وہ حالات کے بدلنے سے نہیں بدلتے۔ یہ ان کی خوش نصیبی ہے۔ ملاوٹی لوگ جس حال میں بھی ہوں ملاوٹی ہی ہوتے ہیں۔ وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے ہیں۔ وہ دعاؤں سے محروم رہتے ہیں۔یہ ان کی بدنصیبی ہوتی ہے۔
ایک طبقہ ہے جس کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ اور ایک دوسرا طبقہ ہے جو روزانہ ہزاروں روپے کے کھانے کھا جاتا ہے اور ہزاروں روپوں کا کھانا ضائع کر دیتا ہے۔یہ نہ صرف ہم سب روزانہ دیکھ رہے ہیں بلکہ خود بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ہم خود بھی اصراف اور فضول خرچی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ ہم سب اگر میانہ روی کو اپنا شعار بنالیں تو نہ صرف ہم بلکہ معاشرہ بھی خوشحال ہو جائے گا۔ ملک کا دنیا میں نام ہو جائے گا۔ پاکستان مستحکم ہو گااور ہمارے ملک کا دنیا میں اونچا نام ہو گا۔