تحریر ، عمر فاروق ناز
جب لوگوں کا توازن بگڑ جائے ،
جب لوگوں کی سوچ جواب دے جائے ،
جب قانون بکے بازاروں میں ،
جب قاتل کی رسی دراز ہو ،
جب شریف منہ چھپائے پھرتے ہوں ،
جب شرافت کی پھگڑی سرعام اچھالی جاتی ہو ،
جب گناہ کو فخر سمجھا جاتا ہو ،
جب قانون بے لگام ہو جائے ،
جب جھوٹ کے پیروکار بڑھ جائیں ،
جب لیڈر کرسی کے بس پیاسے ہوں ،
جب موسموں کا کوئی موسم نہ ہو ،
جب ہوا کی بیٹی سرعام لٹ جائے ،
جب امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوجائے ،
جب پیسہ ہی ایمان بن جائے ،
جب قاتل کو دیکھ کے بھی لوگ گواہی نہ دیں ،
جہاں بزرگوں کی تعظیم ختم ہو جائے ،
جب عورت کی حکمرانی کو فوقیت ہو ،
تو ایسے میں انتظار کرو ، بے برکتی کی ، بے سکونی کی ، تم کروڑوں کما کے بھی بے سکوں رہو ، تمہیں بیماریاں بھی عجیب و غریب لگ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟
پھر رب کریم کی لاٹھی حرکت آتی ہے ، پھر انقلاب جنم لیتا ہے پھر لوگ اندھا دھن بھاگتے ہیں ، نہ قانون رہتا ہے نہ قانون والے ، پھر اشرافیہ بھی بھیک مانگتی ہے زندگی کی ، روٹی کی ، لیکن اس وقت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ رب کریم کا قانون ہے لوگ جب ساری حدیں کراس کر جائیں ، جب ظالم کی رسی دراز ہو جائے تو پھر اوپر سے کھینچا جاتا ہے ، میرے رب کی صرف ہلکی سی جھلک بڑے بڑے فرعونوں کے ، قارونوں کے ، نمرودوں کے ، ابو جہلوں کے ایسا بھسا بناتا ہے کہ قومیں غرق ہوجاتی ہیں اپنے تکبر اور اکڑ میں ان کا نشاں تک نہیں ملتا پھر میرا رب کریم ان کی جگہ دوسری اور قوموں کو بھیج دیتا ہے کیونکہ ایسی سرکش قوموں کا ایسا ہی علاج ہوتا ہے ،
کبھی بھی لوگوں پر عذاب ایک دن میں نہیں آیا جب قومیں اخلاقی حدیں کراس کر جاتی ہیں تو پھر میرے رب کا اٹل فیصلہ آجاتاہے تو ایسی قومیں خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آئیے ابھی بھی وقت ہے مہلت کو غنیمت سمجھو اپنے رب کریم کی طرف لوٹ آئیں سجدے میں گر جائیں معافی مانگ لیں اپنے رب کو منا لیں وہ بڑا رحیم و کریم ہے وہ تو بہانے ڈھونڈتا ہے کے کوئی آئے ظاہری بھی باتنی بھی رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی تہجد کے لاڈلے ٹائم پے بھی بس آ جائے اپنے رب کریم کی طرف دل میں کہے یا ہاتھ اٹھا کے بھی وہ سن لیتا ہے دل کی آہٹیں بھی سماعتیں بھی ، لوٹ آئیں ہم سب اس انقلاب سے پہلے جس میں پھر فیصلے ہوتے ہیں جس میں پھرآہو زاریاں بھی کام نہیں آتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب دستک دے رہا ہے ، ہے کوئی جو اسکی آہٹ سن سکے ، ہے کوئی جو اپنے رب کو منا لے ، ہے کوئی جو کسی سے معافی مانگ لے کسی کو معاف کردے ، ہے کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطرت افراد سے تو کرلیتی ہے اغماض
نہیں کرتی ملت کے گناہوں کو معاف ،