روداد خیال : صفدر علی خاں
اپنے اخبار کی اشاعت کا تسلسل جاری رکھنے کی خاطر سرگرم رہتا ہوں ،لوگوں سے میل ملاپ رہتا ہے ،سماجیات کے حوالے سے کچھ مصروفیات بھی رہتی ہیں ،سیاسی بحثیں رہتی ہیں ،سیاسی وابستگیاں رکھنے والے یار بیلی ہر حال میں اپنے افکار کو مسلط کرنے کی کاوش کرتے رہتے ہیں ،ان کے سامنے جس قسم کے بھی حقائق رکھ کر انکے سیاسی رہنمائوں کو غلط قرار دینے کی ہر کوشش رائیگاں اس لئے جاتی ہے کہ ان کا “کاں سدا چٹا ہی ہوتا ہے “یعنی انکے نزدیک کوا ہمیشہ سفید ہوتا ہے ہم سب ملکر بھی سیاہ کوے کو سیاہ ثابت نہیں کرسکتے ۔اب تک سیاست میں عوام سے حقائق چھپانے کا عمل ایک طرح سے معمول بن گیا ہے ،جس بات پر ڈٹ کر انکار کیا جاتا ہے حقائق طشت از بام ہونے پر خاموشی سے اپنے جھوٹ کو تسلیم کرلیا جاتا ہے ۔ان کے سفید کوے پھر کالے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ماضی کے بیانیہ کو بھلانے کی شعوری کوشش بھی کرتے ہیں ۔ضیاء الحق کے دور سے قومی سطح پر معاملات چھپانے کا رواج ڈالا گیا ،ضیاء دور میں قوم سے حقائق چھپانے کی سرگرمی بام عروج پر پہنچی ۔ضیا الحق کی صادق اور امین حکومت آٹھ برس تک اس حقیقت کو سوویت ایجنٹوں کا پروپیگنڈہ کہہ کر مسترد کرتی رہی کہ افغان جنگ سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ہے جس میں افغان مجاہدین محض ایک بساطی مہرہ ہیں۔جب چارلی ولسنز وار جیسی کتابوں سے مارکیٹ بھرگئی تو ضیا الحق کے زندہ حواری بھی اعتراف کرنے لگے کہ یہ محض افغان مجاہدین کی جنگِ آزادی نہیں تھی۔بے نظیر بھٹو اگرچہ اپنے حکومتی زوال کا سبب انٹیلی جینس ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے دیگر مہروں کو قرار دیتی رہیں لیکن آخری دم تک یہ اعتراف کر کے نہیں دیا کہ افغان طالبان انکی حکومت اور اسکی ایجنسیوں کی ملی بھگت اور سعودی عرب کے توسط سے خاموش امریکی تائید سے وجود میں لائے گئے۔ایمل کانسی کو صدر فاروق لغاری نے امریکی ایجنٹوں کے حوالے کیا یا وزیرِ اعظم نواز شریف نے ؟ جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے تو فریقین ایک دوسرے پر الزامات کی مٹی اچھال کر سوال کنندہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔کارگل آپریشن تب تک کشمیر میں لڑنے والی مجاہدین تنظیموں کی کارروائی قرار دیا جاتا رہا جب تک ناردرن لائٹ انفنٹری کے جوانوں کی لاشیں انکے گھر والوں نے وصول کرنا شروع نہیں کردیں۔مشرف حکومت آخری وقت تک کہتی رہی کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کو صرف راہداری کی سہولتیں دی گئی ہیں۔پسنی اور جیکب آباد ایر بیس اور شمشی کی فضائی پٹی کو امریکیوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔لیکن آج نو برس بعد مشرف دور کے ریٹائرڈ جرنیل ٹی وی چینلوں پر کھل کے اس بات کا اعتراف کررہے ہیں۔پاکستان ایک ایسا سچ ہے جس کے بانیوں نے اپنے سچے عزم کو من وعن عوام کے سامنے پیش کیا اور پھر رتی برابر بھی کوئی بات قوم سے نہ چھپائی گئی ۔قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ نے قیام پاکستان کے مقاصد اپنی پہلی تقریر میں واضح کردیئے تھے۔قائداعظم محمدعلی جناح نے جس وژن پر پاکستان کو چلانے کی خاطر ریاست مدینہ کے عملی احیاء کی جانب قدم بڑھایا ہم نے 75برسوں میں انکے اس وژن کے برعکس کام کئے ۔ملک کو برباد کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کیا ،ہم آج پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی سالگرہ منارہے ہیں مگر کس نظریے کے ساتھ ؟ کہیں ہم جھوٹ کے 75سال “سیلیبریٹ “تو نہیں کررہے ؟اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاست سوچ بچار کا نام تھا، مسائل کے حل کا نام تھا، مسائل کو حل کرنے والی سوچ بچار بہت پیچھے رہ گئی۔ ترقی کرتی معشیت روبہ زوال ہوگئی۔ سرمایہ کاروں نے اس ڈر سے سرمایہ کاری کرنا چھوڑ دی کہ کیا معلوم حکومت کل کس ڈگر پر چل پڑے اور ان کی جمع پونجی لٹ جائے۔سیاست اصول کا نام تھا۔ جو دو ہفتوں میں لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرتے ہیں پھر ڈھٹائی سے مکر جاتے ہیں۔اس چلن کو اب تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام کون کرے گا؟ کوئی باہر سے تو آکر یہ سب کچھ ٹھیک کرنے سے رہا ،ہمیں خود ایک عادت ترک کرنا ہوگی ،نیچے سے اوپر تک ہمیں ہر حال میں سچ بولنا ہوگا ،جھوٹ سے چھٹکارہ پاکر ہی پاکستان کے قیام کا مقصد پاسکتے ہیں اور اس کا آغاز ہمیں ہرحال میں خود سے کرنا ہوگا ۔