پاکستان کے وقار پر ضد قربان کرنے کا تقاضہ

40

روداد خیال صفدر علی خاں

پاکستان آج گوناں گوں مسائل کی زد میں ہے ،ایک طرف معاشی بحران نے غریبوں کا جینا مشکل بنادیا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہے ،اس پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے راقم الحروف مسلسل تمام سیاستدانوں کے ایک صفحے پر آکر قومی یکجہتی کی ضرورت کا احساس دلارہا ہے مگر پاکستان کے مفاد میں کوئی ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ،اس وقت حالات اس قدر پیچیدگی اختیار کرچکے ہیں کہ اداروں کا تقدس اور ریاست کی رٹ ہر طرح سے دائو پر لگی ہوئی ہے ،حب الوطنی کا تقاضہ تو یہی تھا کہ مشکل ترین صورتحال میں اپوزیشن اور حکومت مل کر بحرانوں سے نکلنے کی صورت نکالتے مگر حالات یکسر مختلف ہیں ،یہاں پر ریاست کی رٹ برقرار رکھنا ہی محال ہورہا ہے ،سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر کہا تھا کہ وہ بطور اپوزیشن لیڈر زیادہ خطرناک ثابت ہونگے اور اب ایسا ہی ہوا ہے ان کے عدالت سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے جس کی تعمیل کے لئے فورس انکی رہائش گاہ پہنچی تو سخت مزاحمت سے کشیدگی بڑھ گئی اور وہاں پر پی ٹی آئی کے کارکن پہلے ہی ڈھال بنے ہوئے تھے اور پولیس کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جہاں دو دن تک وقفے وقفے سے پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔اس دوران کئی افراد زخمی ہوئے،اس معاملے میں ایک جانب تو حکومت کی اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسری طرف حکومت کی رٹ کا بھی سوال اٹھایا گیا ،پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور اس معاملے پر بین الاقوامی میڈیا نے
اپنی اپنی رائے دیکر اس کو مزید اچھالا ،امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اس معاملے کو لائیو کور کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے گھر کے باہر افراتفری، گرفتاری کے لیے آئی پولیس اور کارکنوں میں تصادم ہو گیا۔ادارے نے لکھا کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے معاملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کردیا جبکہ بلاول کی سی این این سے گفتگو کو بھی خبر کا حصہ بنایا جنہوں نے عدالتوں کا سامنا نہ کرنے پر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔بلوم برگ نے لکھا کہ عمران کی گرفتاری کے لیے آئے پولیس اہلکاروں اور کارکنوں میں تصادم ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور عمران خان کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جو دوسری مرتبہ انہیں گرفتارکرنے کے لیے آئی تھی اور اس کے نتیجے میں سیاسی بحران مزید شدید تر ہو گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے(بی بی سی) نے اپنی خبر میں بتایا کہ لاہور میں پرتشدد واقعات کے بعد سابق وزیر اعظم کی جانب سے گرفتاری کی کوششوں کی مذمت کی گئی جبکہ خبر میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ دعویٰ بھی شامل تھا جنہوں نے کہا کہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے عورتوں، بچوں اور پارٹی کارکنان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے اسکائی نیوز نے کہا کہ 70سالہ عمران خان اثاثے چھپانے، توشہ خانہ کے تحائف غیرقانونی طور پر فروخت کرنے، دہشت گردی سمیت متعدد مبینہ جرائم کے ارتکاب کے الزام میں نکالے گئے وارنٹ گرفتاری کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ٹیلی گراف نے لکھا کہ پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے پرعزم ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ہزاروں کارکنوں کا پولیس سے تصادم ہوا۔الجزیرہ نے اپنی خبر میں کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کا انہیں گرفتار کرنے کا مقصد الیکشن سے بچنا ہے جبکہ پولیس نے کہا تھا کہ وہ عمران خان کو دن کے اختتام تک گرفتار کر لیں گے لیکن وہ دن گرفتاری کے بغیر ہی گزر گیا۔
اسی طرح مختلف بھارتی اور ترک نشریاتی اور خبر رساں اداروں نے بھی لاہور میں عمران خان کی گرفتاری اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے کیے جا رہے احتجاج کو بھی اپنی خبر کا حصہ بنایا۔پولیس کی جانب سے عدالتی احکامات کی تعمیل کے عمل کی بے توقیری کی گئی ۔پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے پتھراؤ کیا، غلیلیں چلائیں، ڈنڈے برسائے ، مارو مارو کے نعرے لگائے، پیٹرول بم بھی پھینکے۔
ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے اب یہاں سیاسی عدم استحکام کی کوئی گنجائش نہیں ،سوچنا یہ چاہئے کہ ایسے واقعات پر ملکی ساکھ کو نقصان ہورہا ہے ،مزاحمت کرنے والے بھی پاکستانی ہیں ،پولیس بھی ہماری اپنی ہے اور آپس میں تصادم پر دنیا بھر کا میڈیا ہمیں غیر مہذب قرار دے رہا ہے ،
آج کے حالات اب یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہم خود ہی اپنے ملک کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں ۔ابھی وقت ہے ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ،ہم اپنے ہم وطنوں کو دل سے اپنا تسلیم کرلیں تو نصف سے زیادہ مسائل خود ہی ختم ہو جائیں گے ،یہ عدالتیں ،پولیس اور ادارے ہمارے اپنے ہیں ان کو دشمن سمجھنے کا رویہ دفن کرنا ہوگا ، ہمیں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو پاکستان کے وقار پر قربان کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا ،ہمیں اپنے دشمنوں کی پہچان ہونی چاہئے جو ہمارے باہمی اختلافات کو ہوا دیکر ہمیں تصادم کے راستے پر لے آئے ہیں ،آج ہمیں اپنے وطن کو ہر مشکل سے بچانے کی خاطر قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرکے دنیا کی رائے کو غلط ثابت کرنا ہے ۔