تحریر؛ ناصر نقوی
”پاکستان” ایسی دلدل میں پھنسا دکھائی دے رہا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہ بحرانی کیفیت ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی، ہر روز اس بحران میں اضافہ ہو رہا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ معاملات کیسے سدھریں گے لیکن عوامی مکالمہ یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے وطن عزیز کو اس حالات تک پہنچایا، حالانکہ یہ تکرار تو اس وقت ہونی چاہیے تھی جب یہ تنزلی کا سفر شروع ہوا تھا ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہر صاحب اقتدار جمہوری ہو کہ آمر جمہوریت کو پامال کر کے آنے والا وہ اور اس کے ہمنوا ایسے ہوتے ہیں کہ حقائق کسی کو پتہ ہی نہیں لگنے دیتے، چھوٹے موٹے عوامی مفادات کے کام کر کے ان کی توجہ یوں ”سبز باغ” کی جانب موڑ دیتے ہیں کہ مفادات کا غلام حضرت انسان اسے ہی نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے، پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہمیشہ یہی کہانی دہرائی گئی اور معصوم عوام نے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک صرف اس لیے کہہ دیا کہ وہ سابق حکمرانوں کے ستائے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ترقی و خوشحالی کے سپنے دکھائے وہ پورے نہیں کئے، وہ نہیں جانتے کہ مملکت پاکستان کے استحکام اور دنیا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کے لیے کس جماعت اور حکمران کی خارجہ پالیسی مثبت تھی اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ کس کی تجارتی پالیسی اچھی تھی کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کب ہمارے حالات میں نمایاں فرق پڑا تھا اور ملک بھر میں عام آدمی کی شرح آمدن اور روزگار کے معاملات بڑھے تھے، عوام کے پاس جینے اور ترقی کا فارمولا ایک ہی ہے کہ مہنگائی کتنی بڑھی اور قوت خرید میں کس قدر کمی ہوئی جبکہ اس فارمولے کے تحت اگر ہم گزشتہ 75سالوں کا جائزہ لیں تو آمرانہ دور تھا یا جمہوری ، ماضی کے حوالے سے ہمیشہ مہنگائی بڑھی اور اسے ہر حکمران نے غیر فطری تقاضوں سے بہتر کرنے کی کوشش کی، ہر مشکل کا حل ”سبسڈی” میں تلاش کیا گیا۔ یہی روایات نافذ العمل تھیں اور اب بھی ہیں۔ فرق یہ پڑا کہ موجودہ حالات میں عالمی مالیاتی مافیا کے ٹھیکیداروں نے”سبسڈی” کا نام سننے سے انکار کر کے اپنے فارمولے پر مسائل کا حل ڈھونڈنے کی شرط عائد کر دی، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ روزانہ خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں لیکن نتائج برعکس ہیں اس لیے کہ ”اونٹ” کی طرح ہماری کوئی کل سیدھی نہیں اور ہم ٹھہرے ترقی پذیر ملک، ہم اپنے متفقہ آئین پر صرف فخر کرتے ہیں اس پر عمل پیرا رہنے کی بجائے نظریہ ضرورت کا استعمال حکمران اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب اقتدار عرش سے فرش پر آ جاتا ہے تو وہی حکمران کوئی نیا بیانیہ داغ دیتے ہیں اور بھولی عوام دو حصّوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ انگریز کا فارمولا نیا جنم لے لیتا ہے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو” ۔۔ آج تک یہی ہوا اس لیے کہ تضاد بیانی اور منافق سوچ تو سجدوں کو بے کیف بنا دیتا ہے ”زندگی” بھلا کیا شے ہے؟ ان بْرے حالات میں ہر جانب سے ایک ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کو اس حالت تک کس نے پہنچایا؟ کسی کے پاس جواب نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس میں ”معصوم عوام کا ہاتھ بھی نہیں اور ووٹ کی طاقت بھی نہیں”۔ اصل لوگ وہ ہیں جو اپنی کمال مہارت سے ”عوام کا ہاتھ اور ووٹ کی طاقت” کسی نہ کسی ذرائع سے اپنے حق میں کر لیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے، لیکن حالات کتنے بھی بگڑ جائیں انہیں فرق نہیں پڑتا، ان کے پاس مال و دولت بھی ہے اور ایک سے بڑھ کے ایک فارمولے بھی، مارے تو عام لوگ جاتے ہیں اور پریشانی بھی انہیں ہی ہوتی ہے کیونکہ اخلاقیات اور روایات کو بھی سینے پر پتھر رکھ کر وہ نبھا رہے ہیں سیاسی اور منصبی لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں، وہ آج ادھر، کل ادھر اور پرسوں کہاں ہوں گے کسی کو معلوم نہیں، کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس کے اشارے پر سیاسی آنکھ مچولی کھیلتے ہیں نہ خدا خوفی ہے اور نہ ہی ضمیر نام کی شے انہیں تنگ کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہو جہاں کسی بھی عہدے اور منصب پر اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھانے والے چند لمحوں بعد ہی حلف خلافی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اس لیے ہمارے ہاں اکثر انتہائی اہم عہدوں پر انتہائی چھوٹے لوگ نظر آتے ہیں بلکہ ان کی قربت میں پذیرائی کرنے والوں کا ایک جھرمٹ بھی ہوتا ہے، میں نے ایک کلپ دیکھا جس میں ہمارے دشمن بھارتی وزیراعظم مودی جی ایک بڑی تقریب میں قسم کھائے بغیر اپنی 75دنوں کی کارکردگی کا تذکرہ کر کے داد حاصل کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا ”ہائے ہمارے 75سال”ـــ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس پر الزام لگائوں اس لیے کہ ہماری تو پوری جمہوریت اور سیاست ”الزامات” کی بنیاد پر کھڑی ہے، ہاں ایک خبر اور بھی ہے کہ مہاتما گاندھی کی بیٹی اندرا گاندھی سابق وزیراعظم بھارت کے پوتے راہول گاندھی اپوزیشن لیڈر کو ”مودی جی” کو چور کہنے پر نہ صرف 2سال کے قید کی سزا دے دی گئی بلکہ ان کی رکنیت لوک سبھا بھی ختم کر دی گئی۔ انہوں نے ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ تمام چوروں کا نام مودی ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے ہاں تو دونوں جانب سے ”چور چور” کے نعرے لگ رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ”سارا ٹبر چور ہے، مریم کا پاپا چور ہے” ، ”گھڑی چور” قومی مجرم ہے ، چور اقتدار میں چور راستے سے آئے ہیں اور اپنی چوری کے مقدمات ختم کرا رہے ہیں لیکن بھارتی عدالت جیسی کارروائی نہیں ہو رہی، پہلے چور بری اور موجودہ چوروں کی ضمانتیں؟ لگتا ہے ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ جمہوریت پسند اور آزاد ہیں؟؟؟
ہم گھڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے حقیقت کی راہ اپناتے ہیں اس لیے کہ ہمارا خمیر پاکستان کی مٹی کا ہے اور اللہ نے چاہا تو اسی مٹی کی غذا بھی بنیں گے ۔ ہماری پہچان پاکستان، ہماری شان پاکستان” اسی آزاد مملکت کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں، وطن سے بے وطن ہوئے، اسی پر جاں نثار کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں لہٰذا حالات دن بدن نازک ہوتے جا رہے ہیں، مارو اور مر جائو کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ذمہ داران اور حکمران اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں کوئی کسی کی سننے کو تیار نہیں، نادانی اور عاقبت نااندیشی کا سامنا ہے، گھر کے بحران کے لیے گھر والے مل بیٹھنے کی بجائے دنیا کو مدد کے لیے پکارنے کی جدوجہد کر رہے ہیں حالانکہ ہر معاملے کا حل موجود ہے، پارلیمنٹ بھی ہے، آئین بھی اور عدلیہ بھی، لیکن کسی کو کسی پر اعتبار نہیں، ایک کا اعلان ہے مجھے مار دیا جائے گا، دوسرا اشارہ کر رہا ہے کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی، ”مارشل لا” لگ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی ادھم ایسی کہانی سنا رہی ہے جیسے ”پاکستان” مادر پدر آزاد ہے یہاں آئین و قانون کیا؟ جنگل کا قانون بھی نہیں، اپوزیشن لیڈر مقبول ترین ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود پارلیمنٹ سے باہر بحرانوں کا حل صرف اور صرف الیکشن بتا رہے ہیں۔ حکمران اور الیکشن کمیشن تاریخ دینے، انتظامات کرنے کے باوجود الیکشن کے لیے تیار نہیں، ایک ہی فیصلے پر دو رائے پائی جا رہی ہیں۔ صدر مملکت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کو الیکشن کرانے اور عدالتی حکم پر عمل درآمد و انسانی حقوق کی پاسداری کی تجویز دیتے ہیں تو وزیر داخلہ انہیں یہ کہہ کر ”شٹ اپ” کال دے دیتے ہیں کہ آپ اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اپنی ”اوقات” میں رہیں ، یہ سب کیا ہے؟ آئین و قانون اور مملکت سے ٹکرائو نہیں؟ حالات بگڑتے جا رہے ہیں، ہمیں کس نے اس دلدل میں دھکا دیا اس کی فکر سے ایک نئی بحث شروع ہو جائے گی کیونکہ ہم اپنے الزامات بھی دوسروں پر تھوپنے کے عادی ہیںلہٰذا کسی کی پرواہ کئے بغیر ہم سب کو ہی نہیں ذمہ داروں، حکمرانوں، قومی اداروں کے سربراہوں اور بلا امتیاز تمام سیاستدانوں کو سرجوڑ کر کچھ سخت فیصلے اپنی اپنی انا اور ضد کو ملک و ملت پر قربان کر کے مثبت نتائج کے لیے کرنے ہوں گے جس میں صرف اور اجتماعی مفادات، قومی یکجہتی اور پاکستان کا استحکام پہلے ہو، نہ کوئی جیت نہ کوئی ہارہے، ایسے فیصلے جن سے قوم خواب غفلت سے بیدار ہو کر بقا کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جائے، ایسا صرف مکالمے سے ہو سکتا ہے اس وقت ہر شخص ان بحرانوں کا حل چاہتا ہے جس کے لیے ”مکالمہ ہے ضرو ری” لیکن سیاست دان اپنی سیاست بچانے کے لیے پلینگ فیلڈ مانگ رہے ہیں مکالمے کے لیے یکساں مواقع کون فراہم کرے گا لگتا ہے اس سلسلے میں بھی ”چھڑی” کے بغیر بات نہیں بنے گی کیونکہ لفظی اور سیاسی جنگ میں تو سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں پھر معاملات سدھارنے، ترقی و خوشحالی کی راہ تلاش کرنے اور خون خرابے سے بچنے کے لیے ہر قیمت پر ”مکالمہ ہے ضروری؟” آج قومی ترجیحات کا بھی فیصلہ کرنا پڑے گا تاکہ مستقبل کے لیے کچھ کیا جا سکے ورنہ ہماری تاریخ میں خون بھی موجود اور تاریکی بھی۔