روداد خیال
صفدر علی خاں
محترم محسن نقوی نے کیا خوب کہاتھا ۔
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
سیاست میں بھی قصیدہ گوئی سے انکار کی روایت زندہ ہوئی ہے ،حب الوطنوں نے یوم تکریم شہدائے پاکستان مناتے ہوئے سیاسی وابستگیاں قربان کرنے کی روایت ڈال کر نئی تاریخ رقم کردی ہے ،وقت تھم جائے اور ٹائم مشین اگر آج کی مقبول سیاسی جماعت کے دہائیوں پرانے کلپ چلادے تو پھر یہ امر سب پر آشکار ہوجائے گا کہ ماضی میں اس مقبول سیاسی جماعت کے تقریباً سبھی بڑے عہدیداروں کی الیکشن میں ضمانتیں ضبط ہوجایا کرتی تھیں ،ہمیں یاد ہے عالمی سطح پر معروف سپرسٹار کرکٹر عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس کی کامیابی کی امید تھی مگر عوام کی طرف سے عمران خان کے سیاسی کردار کی حوصلہ افزائی نہ ہوسکی ،لوگ انہیں صرف فلاحی کاموں کی حد تک سرگرم کردار نبھانے کیلئے قابل قبول سمجھ رہے تھے ۔روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس تحریک انصاف نے منفرد بیانیہ اختیار کیا مگر ان سب کے باوجود انہیں بھرپور عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی ۔لوگوں کو عمران خان بطور سیاست دان کیوں قابل قبول نہیں تھا ؟اس موضوع پر کبھی پھر تفصیلی کالم لکھا جائے گا سردست ماضی کی تبدیلیوں کے تناظر میں برپا ہونے والی آج قائدین کے پارٹی چھوڑنے والی لہر کے اسباب ونتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے ،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ابتداء میں سیاسی کامیابی کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ،پانی کی طرح پیسہ بہایا ،اپنی شہرہ آفاق شخصیت کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا مگرتحریک انصاف مجموعی طور پر 1997 کے عام انتخابات اور 2002 کے عام انتخابات میں ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی ،اس پر انہوں نے اپنا منفرد بیانیہ اپناتے ہوئے عملی طور پر اسکے برعکس روایتی سیاسی چال چلنے کا فیصلہ کیا ،بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر ریفری کو ہی اپنی ٹیم کا حصہ بنالیا ،سازباز اور جوڑتوڑ کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی میں الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کروانے کا عمل اسی رفتار اور اندازمیں کیا گیا جس طرح آج وہی الیکٹ ایبلز پارٹی چھوڑنے کا برملا اعلان کررہے ہیں ،تحریک انصاف مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی شمولیت تو
لوگوں کے لئے آج بھی ایک عجوبہ ہے،تاہم واپسی کا عمل سب کی سمجھ میں آرہا ہے ،درحقیقت 9مئی کو ہونے والے ملک گیر سانحے نے پاکستان دشمنوں اور اسکے سچے خیرخواہوں کے درمیان لکیر کھینچ دی ہے ،پاکستان کی آبرو پر حملہ کیاگیا اور یہ جرم ناقابل معافی ہے جس پر پوری قوم نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک دشمنوں کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی کا مطالبہ کردیا ،ملک کی عسکری وسیاسی قیادت بھی شرپسندوں کو ہر حال میں کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ایک صفحے پر نظرآ رہی ہے ،قوم انکے شانہ بشانہ کھڑی ہے ،ان حالات میں دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا ماحول بن گیا ہے ،یہی سبب ہے کہ اب حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے کی خاطرکچھ سیاسی رہنمائوں نے مبینہ شرپسندوں کی مذمت کرتے ہوئے “قصیدہ گوئی کی مزید خدمت “کرنے سے انکار کیا ہے ،کیونکہ اس سیاسی جماعت کے پاس سب کچھ پرایا تھا ،آئیڈیاز اپنے نہیں تھے ،بیانیہ سراسر جھوٹ کا پلندہ رہا ،حقائق مسخ کرنے کیلئے زور دار طریقے سے جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرنے کی خاطر روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ تیار کرنے کا ہنر جاننے والے فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں ،پاکستان کی سیاست میں کئی عجیب وغریب مراحل درپیش رہے ہیں مگر اس بار جو تحریک انصاف کے اندر ہورہا ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا ،حالات پھر اسی موڑ پر واپس بھی آسکتے ہیں جہاں سے گزرنے والے خود اسکی تلخ حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے اب ذرا دیکھیں جب سپر سٹارکھلاڑی کی کرشماتی شخصیت کوعوام نے سیاسی کردار میں قبول نہیں کیا تھا تو پھر سے اسٹبلشمنٹ کا سر سے سایہ اٹھنے پر کہیں تحریک انصاف کی مجموعی کارکردگی 1997 اور 2002 کے عام انتخابات جیسی ہوسکتی ہے ،کیونکہ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں پھر سے ضمانتیں ضبط کرانے والی پرانی لہر چل پڑی ہے ۔